میرے بڑے ماموں نے ابو کو اس حالت میں دیکھا تو انہوں نے اٹھا کر ان کو بستر پر لٹادیا‘ میرے والد کی حالت بے حد خراب تھی۔ میرے ماموں قریبی ہی ڈاکٹر کو دکھانے لے گئے جب ڈاکٹر نے ابو کی حالت دیکھی اور چیک اپ کرنے کے بعد کہا کہ ان کے بچنے کی امید انتہائی کم ہے۔
یہ واقعہ 1987ء میں میرے والد صاحب کے ساتھ پیش آیا تھا‘ ہم لوگ کورنگی میں رہتے تھے اور میرے والد صاحب لانڈھی میں ملازمت کرتے تھے اور اس واقعے کے گواہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ بہت سارے لوگ ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میرے والد صاحب جیسا کہ لانڈھی میں ملازمت کرتے تھے اور ان کو وہاں پر ہی مکان بھی ملا ہوا تھا جبکہ میری امی کی طبیعت خراب رہتی تھی اور ہم لوگ اپنے نانا کے ساتھ کورنگی میں رہتے تھے ابو ہم سے ملنے تقریباً روز ہی آتے تھے لیکن ملازمت کی وجہ سے یہاں پر قیام نہیں کرسکتے تھے۔ ایک دن میرے ابو بہت ہی بُری حالت میں گھر میں داخل ہوئے اور میرے پھوپھی زاد بھائی ان کو سہارا دئیے ہوئے تھے۔ ان کی حالت بہت زیادہ خراب تھی‘ ادھر ہی ایک ڈاکٹر کو دکھایا تو ڈاکٹر نے دوا دی پھر ان کو جب دوا کھلائی تو کچھ بھی افاقہ نہیں ہوا‘ دوسرے دن ڈاکٹر صاحب کے پاس پھر گئے کہ کچھ بھی افاقہ نہیں ہوا تو ڈاکٹر نے دوسری دوا دی جب اس دوا کو کھلایا تو میرے ابو سوگئے۔ اچانک ابو شام میں اٹھے اور امی سے کہنے لگے کہ تم میرا پاؤں کیوں کھینچ رہی ہو‘ امی نے ابو کو یقین دلایا کہ میں نے آپ کا پاؤں نہیں کھینچا لیکن ابو بضد رہے کہ تم میرا پاؤں کھینچ رہی ہو۔ ابو کے بدن میں سخت سوئیاں چبھ رہی تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے جسم کو کوئی تیز دھار آلے سے کاٹ رہا تھا اور ان کو سخت بے چینی معلوم ہورہی تھی۔ابو بستر سے اٹھ کر باہر صحن میں آگئے تھے‘ صحن کچی مٹی کا تھا‘ وہیں درخت کے نیچے لیٹ گئے اور الٹی کردی‘ ابو بے حد نڈھال تھے ان میں اتنی بھی سکت نہیں تھی کہ وہ وہاں سے کمرے تک اٹھ کر جاسکیں‘ وہیں نڈھال پڑے رہے تو میرے بڑے ماموں نے ابو کو اس حالت میں دیکھا تو انہوں نے اٹھا کر ان کو بستر پر لٹادیا‘ میرے والد کی حالت بے حد خراب تھی۔ میرے ماموں قریب ہی ڈاکٹر کو دکھانے لے گئے جب ڈاکٹر نے ابو کی حالت دیکھی اور چیک اپ کرنے کے بعد کہا کہ ان کے بچنے کی امید انتہائی کم ہے۔
اس ہی شام کو میری خالہ کے سسر بھی آگئے جو نانا کے بھائی بھی تھے۔ میرے نانا ابو ماموں وغیرہ ایک بزرگ سے بیعت بھی تھے جو اب انتقال کرگئے ہیں‘ ان کی خانقاہ بھی تھی‘ ہم خالہ کے سسر کو بڑے نانا کہتے ہیں۔ بڑے نانا کو ہمارے گھر رہنا تھا تو نانا خانقاہ میں قیام کرتے تھے تو انہوں نے اپنی چادر وہاں پر رکھی تھی وہ ہر جمعرات کی شب کو قیام کرتے تھے جب وہ اپنی چادر لینے خانقاہ میں گئے تو ان کی حضرت سے ملاقات ہوئی‘ نانا حضرت کے خلیفہ خاص تھے‘ نانا عالم دین بھی تھے‘ جب ملاقات ہوئی تو حضرت نے فرمایا: مولانا کیا حال ہے؟ نانا نے کہا کہ بیگ صاحب (یعنی میرے والد) کی طبیعت سخت خراب ہے اور ڈاکٹر نے بھی جواب دے دیا ہے تو حضرت تھوڑی دیر مراقبہ میں گئے اور کہا ان کو کسی نے سلو پوائزن دیا ہے اور جادو بھی کرایا ہے‘ میں یہ پانی دم کرکے دیتا ہوں تم یہ ان کو پلادینا انشاء اللہ ٹھیک آج بارہ بجے اٹھ کر بیٹھ جائیں گے۔
انہوں نے پانی دم کرکے دیا اور وہ پانی نانا واپس لے کر آگئے اور سب گھر والوں کو بتایا۔ ابو کو دم کیا ہوا پانی پلادیا گیا اور حضرت کے کہنے کے مطابق میرے ابو ٹھیک بارہ بجے اٹھ کر بیٹھ گئے ابو بالکل ہشاش بشاش تھے۔ جب صبح کو انہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو ڈاکٹر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ کیا ہوگیا اور کس طرح ہوگیا؟ ڈاکٹر صاحب نے ابو کو دیکھ کر کہا کہ ان کو تو کچھ بیماری ہی نہیں ہے۔ ابو نے ڈاکٹر صاحب کو ساری بات سنائی تو وہ بھی حاجی صاحب کے قائل ہوگئے تھے۔ نانا پھر حضرت کے پاس گئے اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ بے شک اللہ والوں کےساتھ تعلق میں بہت فیوض و برکات ملتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں